Poetry in Urdu Text - Urdu Poetry All

Assalamu Alaikum in this post I will share with you poetry in urdu text.

 تیری نگاہوں سے شروع ہوتی ھے محبت کی داستان

اُٹھتی ھے جب میرے چہرے کو انجمن آرائی کرتی ھے



نہ بارش کا پتہ نہ اس کی بُوندوں کا پتہ

آۓ نظر سارے بادل تمہارے دلاسُوں کی طرح



چار سو انتشار ہے کیا ہے

یہ خزاں ہے بہار ہے کیا ہے


سب کو مشکوک تم سمجھتے ہو

خود پہ بھی اعتبار ہے کیا ہے


سوا نیزے پہ چاہیے سورج

جسم میں برف زار ہے کیا ہے


مجھ کو منزل نظر نہیں آتی

دور تک رہ گزار ہے کیا ہے


کوئی آہٹ تلک نہیں ہوتی

میرے اندر مزار ہے کیا ہے


ایک پل بھی نہیں مرا اپنا

زندگانی ادھار ہے کیا ہے


میرے ہمدم ذرا بتا مجھ کو

یہ جوانی خمار ہے کیا ہے


ہے جو مجھ سے اسدؔ گریزاں سا

مصلحت کا شکار ہے کیا ہے



محبّتوں کو وفا کا اُصُول کر ہی لیا

نوید ہو کہ یہ کارِ فضُول کر ہی لیا


نجانے کون سے پاپوں کی فصل کاٹی ہے

دِلوں کو زخم، سو چہروں کو دُھول کر ہی لیا


گُلاب جِن کے لبوں سے چُرا کے لائیں رنگ

بُرا ہو وقت کا اُن کو ببُول کر ہی لیا


یہ ان کے اعلیٰ نسب کی کُھلی دلِیل رہی

کہ دوستوں میں ہمارا شمُول کر ہی لیا


مُقدّمہ ہے یہ کیسا کہ ختم ہوتا نہِیں

جو دَھن تھا پاس سُپُردِ نقُول کر ہی لیا


ہُوئے ہیں فیصلے سے ہم مگر تہہ و بالا

کِیا ہے ماں نے تو ہم نے قبُول کر ہی لیا


عطا تھی اُس کی سو دِل سے لگا لیا ہم نے

دِیے جو خار تو اُن کو بھی پُھول کر ہی لیا


تُمہارے چہرے کی صُبحوں کو ہم ترستے ہیں

کِسی کی زُلف کی راتوں نے طُول کر ہی لیا


رشید درد کی خیرات بٹ رہی تھی کہِیں

سو اپنے نام کا بخرا وصُول کر ہی لیا


Must Read: Palestine Poetry in Urdu


ہزار باتوں پہ ہم اکثر یونہی خاموش ہیں رہتے

لوگ کہتے ہیں مغرور اور کبھی پاگل ہیں کہتے


یوں تو سنتے ہیں ہر روز بہت اچھے الفاظ بھی

مگر ہم لفظوں سے زیادہ لہجے ہیں سمجھتے


بات کرتے ہیں سیدھی اور زہر کی مانند

ہم باتوں باتوں میں بات نہیں بدلتے


خیال رکھتے ہیں رشتوں کے تقد س کا مگر

نا قدری کرنے والوں کو ہم دوبارہ نہیں ملتے


یہ لوگ جو بن بیٹھے ہیں خدا، سُن لیں

ہم رب کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے



میں نے جو کیا ستم اس پر نواز

نہ کر پائے گا کوئی


وہ تھی میرے سامنے مگر

میں کتابوں کو تکتا ره گیا



ہاں محبت کے جذبات میں رکھتا ہوں

غم کے ماروں کا احساس میں رکھتا ہوں


دوغلا پن بے نسلوں کی پہچان ہے

میں بے نسلوں کو اوقات میں رکھتا ہوں




آج کھائی ہے چار دِن کے بعد

کِتنی مِیٹھی لگی ہے روٹی آج

آؤ ہم اِس کو نوچ کر کھائیں

شرم کیسی ہے، اِس میں کیسی لاج؟؟


حُکمرانوں نے اِنتہا کر دی

بے ضمِیری کی، بے حیائی کی

کِس ڈِھٹائی سے کر رہے ہیں آج

بات یہ اپنی پارسائی کی


سوال میرا فقط حُکمراں سے اِتنا ہے

کہِیں پہ عدل اگر ہے، کہاں ہے، کِتنا ہے؟؟

کہِیں بھی کوئی اِدارہ، جو صاف سُتھرا ہو؟

تباہِیوں کے دھانے پہ مُلک جِتنا ہے


کبھی تھا لُقمۂ و کپڑا، مکان خطرے میں

ابھی تو ساتھ میں عِزّت کے جان خطرے میں

انا کی دوڑ میں ہو، تُم غلام ضِد کے ہو

ہمارا مُلک ہے، پُرکھوں کی آن، خطرے میں


حیا نہِیں ہے تُمہیں بات کیسی کرتے ہو؟

کِسی غرِیب سی بستی میں دیکھو آ کر بھی

بِلکتے بُھوک سے بچّوں کو، زرد چہروں کو

گُزارا کرتے ہیں کُچھ لوگ مٹّی کھا کر بھی


سہُولتوں کی طلب جُرم شہر زادوں کا

مگر جو گاؤں میں ہیں اُن کا جُرم کیا ہے بتا؟

یہ بُوند بُوند کو پانی کی کیوں ترستے ہیں؟

تُمہارے بچّے یہاں رہ سکیں گے آ کے، بتا


ہماری مانگ بھلا کیا ہے، عیش کا ساماں؟

نہیں ہے، مانگتے ہیں صرف ہم تو آب و ناں

نہِیں ہے بس میں اگر وہ بھی پِھر تو چُلّو بھر

کہِیں بھی تُم کو ملے گا کبھی تو آبِ رواں


کمال کیا ہے جو تُم میں ہے پیشرو میں نہ تھا

نچوڑا اُس نے بھی، اب تُم بھی خُوں نِچوڑو گے

دِیۓ جو زخم گِرانی کے پیشرو نے ہمیں

بھرے ہیں پِیپ سے وہ زخم، اُن کو پھوڑو گے


خُدا تباہ کرے تُم سے حُکمرانوں کو

چُرا کے لے کے گئے مُلک کے خزانوں کو

خُدا کی لاٹھی کی آواز تو نہِیں لیکن

اکیلے چھوڑے گا ہرگز نہ بے زبانوں کو




وہ راہ و رسم کے سلسلے وہ انداز گفتگو تیرا

صرف ہم ہی ہوئے زخمی یا تیرے شکار اور بھی ہیں


Must Read: Sad Poetry in Urdu 2 Lines


شوق مئے ہوا تو ساغر ہی خالی نکلا

میخانے میں ساقی بھی ابدالی نکلا


ایک زمانہ لگا ہے اب جا کے وصل ہوا ہے

صبر فراق بھی میرا کیا ہی مثالی نکلا


مرجھا گئے ہیں گیاھان باردہ بھی چمن میں

صد افسوس اس کا مسئول بھی مالی نکلا


مانگنا چاہی تھی جس سے بھی ہم نے وفا پھر

یہ بد قسمتی کیسی کہ وہ بھی سوالی نکلا


ان کی محفل میں ھمارا بھی چرچا ہوا ہو

بارق کو بھی تو دیکھو کیسا خیالی نکلا




وہ ہم سے بد گُمان رہے، بد گُمان ہم

سو کیا گئے کہ چھوڑ کے نِکلے مکان ہم


فاقے پڑے تو پاؤں تلے (تھی زمِیں کہاں)

ایسے کہاں کے عِشق کے تھے آسمان ہم


اب یہ کُھلا کہ جِنسِ محبّت تمام شُد

پچھتائے اپنے دِل کی بڑھا کر دُکان ہم


کرتا ہے پہلا وار جو وہ منہ کے بل گِرے

رکھتے نہیں ہیں کھینچ کبھی بھی کمان ہم


ہم چُپ رہے جو دورِ گِرانی میں اِس طرح

اِک دِن ہوا میں سانس پہ دیں گے لگان ہم


اپنی خُوشی جو بِھینٹ چڑھائی ہے ہم نے آج

جِیون کِسی بھگت کو کریں کیوں نہ دان ہم


پہلی اُڑان کی تو تھکن تک گئی نہِیں

بھرنے لگے ہیں عِشق کی پِھر سے اُڑان ہم


اِتنا یقِیں تو ہے کہ وہ لوٹے گا ایک دِن

بیٹھیں یہِیں کہِیں پہ لگا کر گِدان ہم


مانا کہ دیکھنے کو تو ہم دھان پان ہیں

مسلک ہے عِشق، عشق کی ہیں آن بان ہم


دیکھو تو چار سُو ہے حسِینوں کا اِک ہُجُوم

جاتی رہی حیات، ہُوئے رفتگان ہم


باندھا ہے عہد، عہد کا ہے پاس بھی رشِید

کُنبہ لُٹا کے رکھتے ہیں اپنی زُبان ہم




عشق کی ڈگری بھی بہت مشکل ہے

رضائے یار کے مضموں پڑھائے جاتے ہیں


وہ مان جائے تو اک شخص رانجھا ہوتا ہے

نہ مانے تو بلھے جیسے سید نچائے جاتے ہیں




موت کو قریب لانے کی خاطر

فرشتے کو بار بار جگاتا رہا


تو نہیں ملی تو جنت میں جا کر

حوروں سے گپ شپ لگاتا رہا




یار تو کہتا ہے میں لفظوں میں درد نہیں لکھتا

تو لوگ واہ واہ کیوں کرتے ہے یار


اور میرا دل میں جو شہر ہے کہی مددتو سے ویران ۔

تو اسے پھر سے آباد کیوں نہیں کرتا یار۔




اسے سمجھانا نہیں آتا

مجھے سمجھنا نہیں آتا


اسے روٹھنے کی عادت ہے

مجھے منانا نہیں آتا


وہ بہاروں کا موسم

میں خزاں کی ہوا


اے عشق تو پاگل ہے

تجھے عاشق ڈھونڈ نا نہیں آتا




دے دیجیئے دل اپنا ہمیں خدا کے واسطے

کہ صدقہ جاریہ باقی رھے بقاء کے واسطے


تا عمر اسد جناب کے مشکور رہینگے ہم

اے کاش دل مل جائے ھمیشہ کے واسطے




آپ کے پیار کا جب خیال آ گیا

یاد گزرا ہوا پھر وہ سال آ گیا


دیکھ کر مجھ کو تم نے جھکائی نظر

اور چہرے پہ زلفوں کا جال آ گیا


تم کو کہتا گیا ہوں میں جتنا حسیں

میرے شعروں میں ویسا جمال آ گیا


رات بھر اُس کے بوسے میں لیتا رہا

تیرے خط میں ترا ایک بال آ گیا


دل میں میرے حسینوں کی دنیا سے وہ

جس کی کوئی نہیں ہے مثال، آ گیا


رہنا بن تیرے مجھ کو گوارا نہیں

آ کے کہہ دے کہ عہدِ وصال آ گیا


اٹھ کے شمعیں جلاؤ، چراغاں کرو

جس کا آنا تھا لگتا محال، آ گیا


گفتگو ساری نظروں نے نظروں سے کی

لطف باتوں کا یوں بےمثال آ گیا


کائنات اُس میں ڈوبی کہ تھی ہی نہیں

اُس کی پلکوں پہ جب بھی زوال آ گیا


کس تَبَسُّم سے وہ دیکھتے تھے کہ جب

میرے ہونٹوں پہ اُن کا سوال آ گیا




جھوٹے پیار کا جھوٹا افسانہ سنا کے

دل کے جذبات سے کھیل کر دیوانہ بنا کے


چلا گیا پھر کہاں؟ ہم سے بچھڑ کر

مجنوں اپنے پیار میں دیوانہ بنا کے




چھپا چاند سورج گھناؤں کے پیچھے

ہوا سانحہ ہے یہ گاؤں کے پیچھے


ابھی تو حقیقت ہے قدغن میں لپٹی

محبت چھپی ہے جفاؤں کے پیچھے


مری ماں کی ہیں ساتھ میرے دعائیں

ابھی تک اثر ہے دعاؤں کے پیچھے


چرا سب گئے ہیں مرا تو لٹیرے

بچا کچھ نہیں ہے اناؤں کے پیچھے


ذرا دیر رک جا حسیں ہے نظارہ

کہ بدلی چھپی ہے فضاؤں کے پیچھے


ستم جو ہوئے ہیں وہ دیکھے ہیں سب نے

نہیں کوئی بھاگا صداؤں کے پیچھے


محبت نہیں دیکھتی کچھ بھی شہزاد

لٹا دی ہے جاں بے وفاؤں کے پیچھے


Must Read: Poetry in Urdu


ترستی ہوں میں سننے کو ترا لہجہ نہیں ملتا

زمانے میں کوئی مجھ کو ترے جیسا نہیں ملتا


ترے تک پہنچنے کی سب یہ تدبیریں ہیں لاحاصل

کبھی ہمت نہیں رہتی کبھی رستہ نہیں ملتا


بڑی بے چین رہتی ہیں نگاہیں اس زمانے کی

مگر دیدار کی خاطر ترا چہرہ نہیں ملتا


تصورمیں تمہیں ہرپل سدامحسوس کرتی ہوں

حقیقت میں تری خوشبو کا بھی جھونکا نہیں ملتا


مری خواہش ہے جب چاہوں تمہیں دیکھوں تسلسل سے

دکھادے جو تری صورت ایسا شیشہ نہیں ملتا


ذہیں بھی تو بلا کا ہے ادائیں بھی قیامت ہیں

کہوں کیوں نہ فخر سے پھر کوئی تجھ سا نہیں ملتا


یہی عادت ہےبرسوں سےچلےآتے ہیں محفل سے

کہ جس محفل میں اک پل بھی ترا چرچا نہیں ملتا


مقدر بدلے جاتے ہیں دعاؤں سے عطاؤں سے

دعا سے آزما لو تم تمہیں کیا کیا نہیں ملتا

Post a Comment

0 Comments

close