Meer Taqi Meer Poetry - Urdu Poetry All

Assalamu Alaikum in this post I will share with you Meer Taqi Meer poetry. Here you will get urdu text and images.

Meer Taqi Meer Poetry



بزم میں جو ترا ظہور نہیں
شمع روشن کے منہ پہ نور نہیں

کتنی باتیں بنا کے لاؤں ایک
یاد رہتی ترے حضور نہیں

خوب پہچانتا ہوں تیرے تئیں
اتنا بھی تو میں بے شعور نہیں

قتل ہی کر کہ اس میں راحت ہے
لازم اس کام میں مرور نہیں

فکر مت کر ہمارے جینے کا
تیرے نزدیک کچھ یہ دور نہیں

پھر جئیں گے جو تجھ سا ہے جاں بخش
ایسا جینا ہمیں ضرور نہیں

عام ہے یار کی تجلی میرؔ
خاص موسیٰ و کوہ طور نہیں



لب ترے لعل ناب ہیں دونوں
پر تمامی عتاب ہیں دونوں

رونا آنکھوں کا روئیے کب تک
پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں

ہے تکلف نقاب وے رخسار
کیا چھپیں آفتاب ہیں دونوں

تن کے معمورے میں یہی دل و چشم
گھر تھے دو سو خراب ہیں دونوں

کچھ نہ پوچھو کہ آتش غم سے
جگر و دل کباب ہیں دونوں

سو جگہ اس کی آنکھیں پڑتی ہیں
جیسے مست شراب ہیں دونوں

پاؤں میں وہ نشہ طلب کا نہیں
اب تو سرمست خواب ہیں دونوں

ایک سب آگ ایک سب پانی
دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں

بحث کاہے کو لعل و مرجاں سے
اس کے لب ہی جواب ہیں دونوں

آگے دریا تھے دیدۂ تر میرؔ
اب جو دیکھو سراب ہیں دونوں




اب حال اپنا اس کے ہے دل خواہ
کیا پوچھتے ہو الحمدللہ

مر جاؤ کوئی پروا نہیں ہے
کتنا ہے مغرور اللہ اللہ

پیر مغاں سے بے اعتقادی
استغفر اللہ استغفر اللہ

کہتے ہیں اس کے تو منہ لگے گا
ہو یوں ہی یا رب جوں ہے یہ افواہ

حضرت سے اس کی جانا کہاں ہے
اب مر رہے گا یاں بندہ درگاہ

سب عقل کھوئے ہے راہ محبت
ہو خضر دل میں کیسا ہی گمراہ

مجرم ہوئے ہم دل دے کے ورنہ
کس کو کسو سے ہوتی نہیں چاہ

کیا کیا نہ ریجھیں تم نے پچائیں
اچھا رجھایا اے مہرباں آہ

گزرے ہے دیکھیں کیوں کر ہماری
اس بے وفا سے نے رسم نے راہ

تھی خواہش دل رکھنا حمائل
گردن میں اس کی ہر گاہ و بیگاہ

اس پر کہ تھا وہ شہ رگ سے اقرب
ہرگز نہ پہنچا یہ دست کوتاہ

ہے ماسوا کیا جو میرؔ کہیے
آگاہ سارے اس سے ہیں آگاہ

جلوے ہیں اس کے شانیں ہیں اس کی
کیا روز کیا خور کیا رات کیا ماہ

ظاہر کہ باطن اول کہ آخر
اللہ اللہ اللہ اللہ


کیا کہوں کیسا ستم غفلت سے مجھ پر ہو گیا
قافلہ جاتا رہا میں صبح ہوتے سو گیا

بے کسی مدت تلک برسا کی اپنی گور پر
جو ہماری خاک پر سے ہو کے گزرا رو گیا

کچھ خطرناکی طریق عشق میں پنہاں نہیں
کھپ گیا وہ راہرو اس راہ ہو کر جو گیا

مدعا جو ہے سو وہ پایا نہیں جاتا کہیں
ایک عالم جستجو میں جی کو اپنے کھو گیا

میرؔ ہر یک موج میں ہے زلف ہی کا سا دماغ
جب سے وہ دریا پہ آ کر بال اپنے دھو گیا



غالب کہ یہ دل خستہ شب ہجر میں مر جائے
یہ رات نہیں وہ جو کہانی میں گزر جائے

ہے طرفہ مفتن نگہ اس آئنہ رو کی
اک پل میں کرے سینکڑوں خوں اور مکر جائے

نے بت کدہ ہے منزل مقصود نہ کعبہ
جو کوئی تلاشی ہو ترا آہ کدھر جائے

ہر صبح تو خورشید ترے منہ پہ چڑھے ہے
ایسا نہ ہو یہ سادہ کہیں جی سے اتر جائے

یاقوت کوئی ان کو کہے ہے کوئی گلبرگ
ٹک ہونٹ ہلا تو بھی کہ اک بات ٹھہر جائے

ہم تازہ شہیدوں کو نہ آ دیکھنے نازاں
دامن کی تری زہ کہیں لوہو میں نہ بھر جائے

گریے کو مرے دیکھ ٹک اک شہر کے باہر
اک سطح ہے پانی کا جہاں تک کہ نظر جائے

مت بیٹھ بہت عشق کے آزردہ دلوں میں
نالہ کسو مظلوم کا تاثیر نہ کر جائے

اس ورطے سے تختہ جو کوئی پہنچے کنارے
تو میرؔ وطن میرے بھی شاید یہ خبر جائے



شب شمع پر پتنگ کے آنے کو عشق ہے
اس دل جلے کے تاب کے لانے کو عشق ہے

سر مار مار سنگ سے مردانہ جی دیا
فرہاد کے جہان سے جانے کو عشق ہے

اٹھیو سمجھ کے جا سے کہ مانند گرد باد
آوارگی سے تیری زمانے کو عشق ہے

بس اے سپہر سعی سے تیری تو روز و شب
یاں غم ستانے کو ہے جلانے کو عشق ہے

بیٹھی جو تیغ یار تو سب تجھ کو کھا گئی
اے سینے تیرے زخم اٹھانے کو عشق ہے

اک دم میں تو نے پھونک دیا دو جہاں کے تیں
اے عشق تیرے آگ لگانے کو عشق ہے

سودا ہو تب ہو میرؔ کو تو کریے کچھ علاج
اس تیرے دیکھنے کے دوانے کو عشق ہے



ہے غزل میرؔ یہ شفائیؔ کی
ہم نے بھی طبع آزمائی کی

اس کے ایفائے عہد تک نہ جیے
عمر نے ہم سے بے وفائی کی

وصل کے دن کی آرزو ہی رہی
شب نہ آخر ہوئی جدائی کی

اسی تقریب اس گلی میں رہے
منتیں ہیں شکستہ پائی کی

دل میں اس شوخ کے نہ کی تاثیر
آہ نے آہ نارسائی کی

کاسۂ چشم لے کے جوں نرگس
ہم نے دیدار کی گدائی کی

زور و زر کچھ نہ تھا تو بار میرؔ
کس بھروسے پر آشنائی کی



جس جگہ دور جام ہوتا ہے
واں یہ عاجز مدام ہوتا ہے

ہم تو اک حرف کے نہیں ممنون
کیسا خط و پیام ہوتا ہے

تیغ ناکاموں پہ نہ ہر دم کھینچ
اک کرشمے میں کام ہوتا ہے

پوچھ مت آہ عاشقوں کی معاش
روز ان کا بھی شام ہوتا ہے

زخم بن غم بن اور غصہ بن
اپنا کھانا حرام ہوتا ہے

شیخ کی سی ہی شکل ہے شیطان
جس پہ شب احتلام ہوتا ہے

قتل کو میں کہا تو اٹھ بولا
آج کل صبح و شام ہوتا ہے

آخر آؤں گا نعش پر اب آہ
کہ یہ عاشق تمام ہوتا ہے

میرؔ صاحب بھی اس کے ہاں تھے پر
جیسے کوئی غلام ہوتا ہے



کب تک تو امتحاں میں مجھ سے جدا رہے گا
جیتا ہوں تو تجھی میں یہ دل لگا رہے گا

یاں ہجر اور ہم میں بگڑی ہے کب کی صحبت
زخم دل و نمک میں کب تک مزہ رہے گا

تو برسوں میں ملے ہے یاں فکر یہ رہے ہے
جی جائے گا ہمارا اک دم کو یا رہے گا

میرے نہ ہونے کا تو ہے اضطراب یوں ہی
آیا ہے جی لبوں پر اب کیا ہے جا رہے گا

غافل نہ رہیو ہرگز نادان داغ دل سے
بھڑکے گا جب یہ شعلہ تب گھر جلا رہے گا

مرنے پہ اپنے مت جا سالک طلب میں اس کی
گو سر کو کھو رہے گا پر اس کو پا رہے گا

عمر عزیز ساری دل ہی کے غم میں گزری
بیمار عاشقی یہ کس دن بھلا رہے گا

دیدار کا تو وعدہ محشر میں دیکھ کر کر
بیمار غم میں تیرے تب تک تو کیا رہے گا

کیا ہے جو اٹھ گیا ہے پر بستۂ وفا ہے
قید حیات میں ہے تو میرؔ آ رہے گا


کاش اٹھیں ہم بھی گنہ گاروں کے بیچ
ہوں جو رحمت کے سزاواروں کے بیچ

جی سدا ان ابروؤں ہی میں رہا
کی بسر ہم عمر تلواروں کے بیچ

چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر
منہ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ

ہیں عناصر کی یہ صورت بازیاں
شعبدے کیا کیا ہیں ان چاروں کے بیچ

جب سے لے نکلا ہے تو یہ جنس حسن
پڑ گئی ہے دھوم بازاروں کے بیچ

عاشقی و بے کسی و رفتگی
جی رہا کب ایسے آزاروں کے بیچ

جو سرشک اس ماہ بن جھمکے ہے شب
وہ چمک کاہے کو ہے تاروں کے بیچ

اس کے آتش ناک رخساروں بغیر
لوٹیے یوں کب تک انگاروں کے بیچ

بیٹھنا غیروں میں کب ہے ننگ یار
پھول گل ہوتے ہی ہیں خاروں کے بیچ

یارو مت اس کا فریب مہر کھاؤ
میرؔ بھی تھے اس کے ہی یاروں کے بیچ




کہتے ہو اتحاد ہے ہم کو
ہاں کہو اعتماد ہے ہم کو

شوق ہی شوق ہے نہیں معلوم
اس سے کیا دل نہاد ہے ہم کو

خط سے نکلے ہے بے وفائی حسن
اس قدر تو سواد ہے ہم کو

آہ کس ڈھب سے روئیے کم کم
شوق حد سے زیاد ہے ہم کو

شیخ و پیر مغاں کی خدمت میں
دل سے اک اعتقاد ہے ہم کو

سادگی دیکھ عشق میں اس کے
خواہش جان شاد ہے ہم کو

بد گمانی ہے جس سے تس سے آہ
قصد شور و فساد ہے ہم کو

دوستی ایک سے بھی تجھ کو نہیں
اور سب سے عناد ہے ہم کو

نامرادانہ زیست کرتا تھا
میرؔ کا طور یاد ہے ہم کو




راہ دور عشق میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا




آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم
اب جو ہیں خاک انتہا ہے یہ




پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے




یاد اس کی اتنی خوب نہیں میرؔ باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا




نازکی اس کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے




عشق اک میرؔ بھاری پتھر ہے
کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے




ہوگا کسی دیوار کے سائے میں پڑا میرؔ
کیا ربط محبت سے اس آرام طلب کو




مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں




اس کے فروغ حسن سے جھمکے ہے سب میں نور
شمع حرم ہو یا ہو دیا سومنات کا




rāh-e-dūr-e-ishq meñ rotā hai kyā 
aage aage dekhiye hotā hai kyā 




pattā pattā buuTā buuTā haal hamārā jaane hai 
jaane na jaane gul hī na jaane baaġh to saarā jaane hai 




nāzukī us ke lab kī kyā kahiye 
pañkhuḌī ik gulāb kī sī hai 




ab to jaate haiñ but-kade se 'mīr' 
phir mileñge agar ḳhudā laayā 




ishq ik 'mīr' bhārī patthar hai 
kab ye tujh nā-tavāñ se uThtā hai




mat sahl hameñ jaano phirtā hai falak barsoñ 
tab ḳhaak ke parde se insān nikalte haiñ  




dikhā.ī diye yuuñ ki be-ḳhud kiyā 
hameñ aap se bhī judā kar chale 




کاسۂ چشم لے کے جوں 
نرگس ہم نے دیدار کی گدائی کی




جور کیا کیا جفائیں کیا کیا ہیں 
عاشقی میں بلائیں کیا کیا ہیں


Post a Comment

0 Comments

close